ما از پے سنائی و عطار آمدیم"
علاّمہ اقبال
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ iiصحرا
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے iiہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں iiدریا
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب iiاپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی iiمیں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو iiاستغنا
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی iiکی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف iiاولی!
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی ، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و iiکسری
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا iiہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر iiزہرا!
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت iiکی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے iiبرپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم iiہے
"گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا1 ii"!
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے "ل" iiسے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ "ال"
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی iiنے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا iiواویلا
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں iiبھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و iiبالا
غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے iiمحرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ، ہے وہی iiزیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت iiپر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت iiسے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر iiفردا
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے iiپانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی iiخارا
رہے ہیں ، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب iiتک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید iiبیضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب iiجائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے iiپیدا
محبت خویشتن بینی ، محبت خویشتن iiداری
محبت آستان قیصر و کسری سے بے iiپروا
عجب کیا رمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
"کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سر خود iiر"2
وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی iiسینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول ، وہی iiآخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یسیں ، وہی iiطہ
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی iiورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے iiلالا
اب میری نگاہوں جچتا میں نہیں کوئی
ReplyDeleteجیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی
تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شانِ لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی
یہ طور سے کہتی ہے ابھی تک شبِ معراج
سرکا ر کا جلوہ ہے تماشا نہیں کوئی
ہوتا ہے جہاں ذکر ،محمد ﷺ کے کرم کا
اُس بزم میں محروم ِ تمنا نہیں کوئی
اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو
افلاک پہ تو گمبد ِ خضراء نہیں کوئی
سرکار کی رحمت نے مگر خوب نوازا
یہ سچ ہے کہ خالدؔ سا نکما نہیں کوئی